سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اب صرف ذاتی رابطوں کا ذریعہ اور فارغ اوقات کا مشغلہ ہیں نہیں اپنے یوزرز کا تعارف اور پہچان بھی بن چکی ہیں۔
کسی سماجی ویب سائٹ پر موجود کوئی
اکاؤنٹ آپ کو اس اکاؤنٹ کے مالک کے رجحانات، خیالات، جذبات، سیاسی نظریات اور
مذہبی عقیدے سمیت اس کے بارے میں دیگر معلومات سے آگاہی کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ اب دنیا میں کسی کو ملازمت دینے کا مرحلہ ہو یا کسی ملک کا پروانۂ راہ داری
پانے کا معاملہ، سوشل میڈیا پر بنائے جانے والے اکاؤنٹس بعض اوقات فیصلہ کُن ثابت
ہوتے ہیں۔ یہی نہیں، سوشل میڈیا پر کی جانے والی آپ کی سرگرمیاں آپ کے تعلقات
اور روابط پر بھی گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہیں اور کچھ غلطیاں آپ کا تاثر خراب
کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔
پاکستان میں مقبول ترین سوشل نیٹ
ورکنگ سائٹ فیس بک ہے۔ انٹرنیٹ سے جُڑے کم ہی پاکستانی ہوں گے جو اس سماجی ویب
سائٹ پر اپنا اکاؤنٹ نہ رکھتے ہوں۔ منفی تاثر جنم لینے کے علاوہ بھی فیس بک سے
وابستہ ہر شخص کے لیے کچھ ایسے نکات جاننا اور سمجھنا ضروری ہیں، جن سے آگاہی اسے
کسی کسی بھی قسم کے نقصان سے بچاسکتی ہے۔
آئیے! فیس بک پر اکاؤنٹ رکھنے اور
سرگرم رہنے والے یوزرز کو کچھ ایسی چیزوں سے آگاہ کریں جن کا جاننا اس کا امیج
خراب ہونے اور کسی بھی قسم کے نقصان سے بچنے کے لیے ضروری ہے:
دھوکا نہ کھائیے:بعض دفعہ یوزرز کو
ایسے پیغامات موصول ہوتے ہیں جن میں فیس بک کی رکنیت کے حوالے سے پیسے کی ادائیگی
کا کہا جاتا ہے۔ ایسا کم کم ہوتا ہے، مگر کوئی بھی یوزر اس دھوکادہی کا نشانہ بن
سکتا ہے۔ یہ بات یاد رکھیے کہ فیس بک ایک مفت سائٹ ہے اور ہمیشہ مفت رہے گی۔
اس سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کی آمدنی کے
دیگر ذرایع ہیں اور یہ یوزرز سے براہ راست اکاؤنٹ بنانے یا کئی پیج اور گروپ
بنانے کی مدد میں کوئی رقم وصول نہیں کرتی۔ اگر کو کوئی ایسا پیغام ملے جس میں فیس
بک کی جانب سے رقم کی وصولی کا کہا گیا ہو تو آپ اسے دھوکے بازی یا مذاق ہی
سمجھیں، اسے ہرگز سنجیدہ نہ لیں۔ فیس بک پر اشتہار کے پیسے ضرور وصول کیے جاتے ہیں
اور اگر ایف بی کی انتظامیہ کے خلاف کسی بھی حوالے سے کوئی آپ سے رقم طلب کرے تو
سمجھ لیں کہ وہ کئی دھوکے باز ہے۔
یہ معاملہ کوئی اور ہے:فیس بک پر اکثر
آپ کو ایسی تصاویر دکھائی دیتی ہیں جن میں کوئی بچہ شدید بیماری کی حالت میں نظر
آرہا ہوتا ہے اور اس تصویر کے ساتھ اس طرح کا پیغام ہوتا ہے،’’یہ بچہ شدید بیمار
ہے، اگر آپ اس تصویر کو لائیک کریں گے تو اس کے علاج پر فیس بک کے طرف سے پیسے
خرچ کیے جائیں گے۔‘‘
یہ بات یاد رکھیں کہ آپ کی طرف سے
کسی پوسٹ یا تصویر پر کیا جانے والا لائیک کسی فلاحی مقصد کے لیے کسی طور فائدہ
مند نہیں ہوسکتا۔ یہ سب فیس بک پر بنے ہوئے کچھ صفحات کی جانب سے اپنے وزیٹرز اور
لائیک کرنے والوں کی تعداد بڑھانے کا حربہ ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ تعداد میں یہ
اضافہ ان صفحات کے لیے کئی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ فیس بک کسی ایسی
سرگرمی پر کوئی معاوضہ ادا نہیں کرتی۔
شیئرنگ سے نہیں ہوگی ارننگ :
بعض یوزر یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی پوسٹ یا تصویر شیئر کرنے سے انھیں مالی فائدہ
ہوگا، کچھ پوسٹس اور تصاویر کے حوالے سے یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے، مگر یہ غلط ہے۔
شئیرنگ سے آپ کو کئی مالی فائدہ نہیں ہوسکتا۔
یہ غلطی نہ کریں: فیس بک پر ’’گیم
انوائٹس‘‘ بھیجنے کا چلن عام ہے۔ یہ انویٹیشن ان لوگوں کے لیے اذیت ناک ثابت ہوتے
ہیں جو ان گیمز میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔ اپنی فرینڈلسٹ میں شامل ایسے لوگوں
کو گیم کھیلنے کا دعوت نامہ بھیج کر آپ ان کے دل میں اپنے لیے ناپسندیدگی پیدا
کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو ان فرینڈ کردیا جائے۔ لہٰذا اس عمل
سے گریز کیجیے۔ ایسے انویٹیشن صرف ان لوگوں کے بھیجیے جو گیم کھیلنے میں دل چسپی
رکھتے ہیں۔
احتیاط لازم ہے: فیس بک پر آنے والے
تحریری مواد پر تصدیق کے بغیر یقین نہ کریں۔ اگر کسی نے کوئی مذہبی عبارت پوسٹ کی
ہے تو اس سے حوالہ معلوم کریں اور تصدیق ہونے کے بعد ہی اس عبارت کو لائیک یا شیئر
کریں یا اس پر کمنٹ کریں۔ اسی طرح کسی شخصیت، گروہ یا جماعت کے بارے میں کوئی
تحریری پوسٹ سامنے آتی ہے تو اس کو یوں ہی سچ نہ مان لیں، بل کہ کھوج لگانے اور
اس کے حقیقت پر مبنی ہونے کا یقین ہونے کے بعد ہی اس پر کوئی سرگرمی کریں۔ بعض لوگ
طبی نسخے اور دوائیں بھی پوسٹ اور شیئر کرتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی لازماً تصدیق
کرلیں۔
کچھ کا کچھ کیا جاتا ہے: فیس بک پر
نظریے، سیاست یا مذہب ہی کی بنیاد پر کسی مخالف کو بدنام کرنے کے لیے جعل سازی
نہیں کی جاتی، بل کہ مخصوص مقاصد کے تحت کسی خاص پروڈکٹ کا امیج خراب کرنے کی مہم
بھی چلائی جاتی ہے۔ مثلاً کوئی تصویر آپ کے سامنے آئے گی، جس میں کوئی خاتون یا
مرد کی ناک سے خون نکلتا دکھائی دے رہا ہوگا، اور اس تصویر پر لکھا ہوگا کہ فلاں
ٹیبلٹ کھانے کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوئی۔ عین ممکن ہے کہ یہ فرد جس کی تصویر دی
گئی ہے کسی مظاہرے میں تشدد کا شکار ہوکر زخمی ہوا ہو۔ چناں چہ ایسی تصاویر پر طبی
ماہرین سے مشورے اور تحقیق کے بغیر یقین نہ کریں۔
ٹیگ کرنا ہوسکتا ہے خطرناک : شاید ہی
فیس بک کا کوئی یوزر ہو جو اپنی تصاویر ٹیگ نہ کرتا ہو۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ
بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تصویر ٹیگ کرنا دراصل اپنی سیکیوریٹی خود توڑنا ہے۔
آپ جس دوست کو تصویر ٹیگ کرتے ہیں، اس کی فرینڈلسٹ میں شامل تمام لوگ وہ تصویر
دیکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ یوں آپ کی ذاتی تصویر آپ کے دوستوں اور قابل اعتماد
افراد کی حد سے کہیں آگے نکل جاتی ہے، اور کسی دوست نے اسے شیئر کردیا تو یہ
سلسلہ مزید دراز ہوسکتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ کی تصویر کو لوگ غلط مقاصد کے
لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ خصوصاً خواتین کو اس معاملے میں بہت احتیاط کرنی
چاہیے۔
اظہار میں کریں احتیاط: ہر شخص کا
کوئی نہ کوئی عقیدہ اور سیاسی ونظریاتی وابستگی ہوتی ہے، مگر اس حوالے سے اپنی
رائے اور نظریات کے اظہار میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ کسی ایشو پر یا کسی گروہ،
جماعت اور شخصیت کے حوالے سے آپ کے سخت اور دل آزاری پر مبنی کمنٹس، پوسٹس اور
شیئرنگ آپ کے حلقۂ احباب میں کمی کرسکتی ہیں اور اس طرح آپ اپنے بہت سے دوست
کھوسکتے یا لوگوں کی ناپسندیدگی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
ساتھ ہی یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی
چاہیے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر جان لے لینا اور
کسی اور طرح نقصان پہنچادینا عام سی بات ہے، وہاں آپ کے سخت اور اشتعال انگیز
کمنٹس یا فیس بک پر اس نوعیت کی کوئی اور سرگرمی آپ کے لیے عام زندگی میں مشکلات
اور خطرات کا باعث بن سکتی ہے، لہٰذا احتیاط کیجیے۔
اپنے منہ میاں مٹھو : فیس بک پر یہ
رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ اپنی ہی اپ لوڈ کی گئی کوئی تصویر یا پوسٹ
خود لائیک کرتے ہیں۔ یہ عمل اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے مترادف ہے، جس سے آپ کا
تاثر خراب ہوتا ہے۔ چناں چہ اس عمل سے گریز کیجیے۔
شیئر کرتے ہوئے: یہ عام رجحان ہے کہ لوگ
اپنی کوئی پوسٹ سب کو شیئر کرتے ہیں۔ بہت سے یوزر اس بات سے واقف ہی نہیں کہ وہ
اپنی پوسٹ سب کو شیئر کرنے کے بہ جائے انتخاب بھی کرسکتے ہیں۔ کچھ پوسٹس ایسی بھی
ہوتی ہیں جو سب کے لیے نہیں ہوتیں، جو کسی ایک فرد یا گروہ کے لیے ہوتی ہیں یا کسی
مخصوص دل چسپی رکھنے والوں کے گروپ میں شیئر کی جاسکتی ہیں۔ کرنا یہی چاہیے کہ
ایسی پوسٹس کو منتخب افراد کی والز پر اور مخصوص گروپس میں شیئر کیا جائے۔
ہر بات کہنے کی نہیں: بعض لوگ ایسی
پوسٹس یا ایسے کمنٹس کردیتے ہیں جو کسی شخص کی ذاتی زندگی یا اس کی ذات سے متعلق
ہوتے ہیں۔ ایسے میں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ آپ کی پوسٹ یا کمنٹ کسی کے لیے نقصان
یا دل آزاری کا سبب نہ بنے۔ یہ یاد رکھیے کہ آپ اپنے ذاتی دوست کے بارے میں کوئی
بات مذاق کے طور پر کہہ رہے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ اس کے لیے سبکی اور پریشانی کا
سبب بن جائے۔
لاگ آؤٹ کرنا نہ بھولیں: جب آپ فیس
بک پر اپنی سرگرمیوں سے فارغ ہوکر اس سے ناتا توڑ رہے ہوں تو لاگ آؤٹ کرنا کبھی
نہ بھولیں۔ خاص طور پر جب آپ کسی پبلک پلیس پر فیس بک استعمال کر رہے ہوں یا کسی
اور کا موبائل یا کمپیوٹر اس مقصد کے لیے آپ کے زیراستعمال ہو، تو لاگ آؤٹ ہونا
ہرگز نہ بھولیں۔ ایسا نہ کرنا آپ کے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
اگر آپ ایڈمن ہیں: اگر آپ فیس بک پر
کسی پیج کے ایڈمن ہیں تو اپنی غیرجانب داری اور توازن پوری طرح برقرار رکھیں اور
ذاتی رائے دینے سے گریز کریں۔ آپ کے ذہن میں یہ حقیقت رہنی چاہیے کہ لوگ اس پیج
پر آپ کی وجہ سے نہیں ہیں بل کہ اس لیے ہیں کہ وہ اس پیج پر آنے والے مواد میں
دل چسپی رکھتے ہیں۔
گوگل ٹرانسلیٹر آپ کا مددگار: فیس بک
پر مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے آپ کے دوست بن سکتے ہیں اور بن جاتے ہیں۔ ایسے
میں اکثر ایک دوسرے کی زبان سے ناواقفیت اور انگریزی جیسی کسی رابطے کی زبان پر
دسترس نہ ہونا آڑے آتا ہے۔ تاہم آپ کسی دوسری قوم کے فرد سے گوگل ٹرانسلیٹر کی
مدد لیتے ہوئے تبادلۂ خیال کرسکتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنی پوسٹ کی گئی عبارت کسی بھی
زبان میں ترجمہ کرکے آپ اپنی بات کی تفہیم کا دائرہ بڑھا سکتے ہیں۔
جعلی لوگوں سے بچیں: کسی کو اپنی فرینڈ لسٹ میں
ایڈ کرتے ہوئے یہ ضرور دیکھ لیں کہ وہ فیک آئی ڈی تو نہیں ہے۔ اگر آپ کو مشہور
شخصیت یا تخلیق کار ہیں تو اور بات ہے، ورنہ یہ بات دھیان میں رہنی چاہیے کہ کوئی
اجنبی کیوں آپ کو فرینڈریکویسٹ بھیج رہا ہے یا رہی ہے۔ کوئی فرینڈ ریکویسٹ آئے
تو اچھی طرح چیک کریں کہ وہ جعلی آئی ڈی ہے یا اصلی۔ اس حوالے سے اس صفحے پر ایک
مضمون شایع کیا جاچکا ہے، جو فیک آئیڈیز کو جاننے کے ضمن میں